فعاليات متجدده وممتعه عبر صفحات منتدانا الغالي |
- الـخــيـمـــــة الـرمـضـانـيـــة المواضيع المتعلقة بشهر رمضان المبارك فتاوى وأحكام ادعية واذكار وكل ما يتعلق بالشهر الكريم بشكل خاص والصيام بشكل عام |
|
أدوات الموضوع | انواع عرض الموضوع |
#1
|
||||||||
|
||||||||
مطوية ( شعبان عطية من عطايا الكريم المنان ) عربي / أوردي
عن أسامة بن زيد رضي الله عنه قال : قلت يارسول الله ماأرك تصوم شهر من الشهور ماتصوم من شعبان ؟ قال : ( ذاك شهر يغفل الناس عنه بين رجب ورمضان وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين فأحب أن يرفع عملي وأنا صائم ) صححه الألباني بسم الله.. الحمد لله الّذي خلق المكان والزّمان، والصّلاة والسّلام على نبيّنا محمّدٍ الّذي أكثر من الصّيام في شعبان، وعلى آله وصحبه وكل من اعتصم بالقرآن.. وبعد فضائل شهر شعبان عطية من عطايا الكريم المنان عن أسامه بن زيد -رضي الله عنهما- قال: قلت يا رسول الله، لم أراك تصوم شهرًا من الشّهور ما تصوم من شعبان؟ قال: «ذاك شهرٌ يغفل النّاس عنه بين رجب ورمضان وهو شهرٌ يرفع فيه الأعمال إلى ربّ العالمين فأحب أن يرفع عملي وأنا صائم» [حسنه الألباني 4/103 في إرواء الغليل]. لماذا سمي شعبان؟ شعبان هو اسم للشهر، وسمَّي بذل لأنّ العرب كانوا يتشعبون فيه (أي يتفرقون) لطلب المياه، وقيل تشعُّبهم في الغارات، وقيل لأنّه شعب (أي ظهر) بين شهري رجب ورمضان، ويُجمعُ على شعبانات وشعابين. كثرة صيامه -صلّى الله عليه وسلّم- في شعبان: لما كان شعبان كالمقدمة لرمضان، فحسن أن يكون فيه شيءٌ مما يكون في رمضان من صيامٍ. عن أمّ المؤمنين عائشة -رضي الله تعالى عنها- قالت: «كان رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- يصوم حتى نقول لا يفطر، ويفطر حتى نقول لا يصوم، فما رأيت رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- استكمل صيام شهرٍ إلا رمضان، وما رأيته أكثر صيامًا منه في شعبان» [البخاري 1969]. وعنها أيضًا -رضي الله تعالى عنها- قالت: «كان أحب الشّهور إلى رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- أن يصومه شعبان ثم يصله برمضان» [رواه أبو داود 2431 والنّسائي 2349 وصححه الألباني]. قال الإمام ابن حجر -رحمه الله تعالى-: "في الحديث دليل على فضل الصّوم في شعبان" (بلوغ المرام). وقال الإمام ابن رجب -رحمه الله تعالى-: "وأما صيام النّبيّ -صلّى الله عليه وسلّم- من أشهر السّنّة فكان يصوم من شعبان ما لا يصوم من غيره من الشّهور" (لطائف المعارف). وقال الإمام الصّنعاني -رحمه الله تعالى-: "وفيه دليلٌ على أنه يخص شعبان بالصّوم أكثر من غيره" (سبل السّلام). الحكمة في إكثاره -صلّى الله عليه وسلّم الصّيام في شعبان: عن أسامه بن زيد -رضي الله تعالى عنهما- قال: قلت يا رسول الله، لم ارك تصوم شهراً من الشهور ما تصوم من شعبان؟ قال : «ذاك شهرٌ يغفل النّاس عنه بين رجب ورمضان وهو شهرٌ يرفع فيه الأعمال إلى ربّ العالمين فأحب أن يرفع عملي وأنا صائم» [حسنه الألباني 4/103 في إرواء الغليل]. 1- أفضل الصّيام بعد رمضان أيام شهر الله الحرام (محرم). 3- كان -عليه الصّلاة والسّلام- يصوم في أيام شعبان ما لا يصوم في غيره من الشّهور. 3- باقي أيام الشّهور في الأفضلية سواءً إلا ما ورده فيه نص كصيام يوم عرفة وعاشوراء وشوَّال. إلخ قال الإمام ابن رجب -رحمه الله تعالى- في بيان حكمة الصيام في شعبان: "وفيه معانٍ وقد ذكر منها النّبيّ -صلّى الله عليه وسلّم- أنّه لما اكتنفه شهران عظيمان: الشّهر الحرام (رجب) وشهر الصيام (رمضان)، أشتغل النّاس بهما عنه، فصار مغفولًا عنه. وكثير من الناس يظنّ أنّ صيام رجب أفضل من صيام شعبان؛ لأنه شهر حرام، ولس كذلك" (لطائف المعارف). الإعجاز العلمي في صيام شعبان لقد ثبت علميًّا أنّ الجسم في أيام الصّوم الأولى يبدأ باستهلاك مخزونه الاحتياطيّ من الدّهون والبروتينات وغيرها (لتعويض النّقص الحاصل بسبب تقليل الطّعام) فينتج عن ذلك سموم تتدفق في الدّم (هرمون الأدرينالين)، قبل أن يتخلص منه الجسم مع الفضلات، مما يؤدي إلى شعور الصّائم ببعض الأعراض: كالصداع والوهن وسرعة الغضب وتغيُّر المزاج وقد يشتم ويسب.. إلخ ممّا قد يضطرّه لأن يترك الصّيام أحيانًا. وهذه الأعراض تزول بعد أن تعود نسب الهرمونات إلى وضعها الطّبيعيّ في الدّم خلال أيام من بدء الصّوم -بإذن الله تعالى- (وهذا ملاحظ لدى الصّائمين). فصيام شعبان (المسنون) كالتّمرين على صيام رمضان (المفروض)، حتى لا يدخل المسلم في صوم رمضان على مشقةٍ وكلفةٍ ... والله -سبحانه وتعالى- أعلم. الصّيام في آخر شعبان عن أبي هريرة -رضي الله تعالى عنه- (حافظ السّنّة، وحبيب المؤمنين) عن النّبيّ -صلّى الله عليه وسلّم- قال: «لا تقدموا رمضان بصوم يومٍ ولا يومين. إلا رجل كان يصوم صوماً، فليصمه» [رواه مسلم 1082]. ومثال من له عادةً: أن يكون المسلم محافظ على صيام يومي الإثنين والخميس مثلًا، فلا بأس بصيامهما. كما نهى -صلّى الله عليه وسلّم- عن صيام (يوم الشّكّ) وهو يوم الثلاثين من شعبان إلا أن يوافق عادته في الصّيام. من بدع ليلة النّصف من شعبان: 1- الاحتفال بليلة النّصف من شعبان بأيِّ شكلٍ من أشكال الاحتفال، سواءً بالاجتماع على عبادات أو إنشاد القصائد والمدائح، أو بالإطعام واعتقاد أن ذلك سنّةٌ واردةٌ. 2- صلاة الألفيَّة (في تلك الليلة) وتسمى أيضًا صلاة البراءة. 3-كذلك صلاة أربع عشرة ركعة أو اثنتي عشرة ركعة أو ست ركعات فيها. 4- تخصيص صلاة العشاء في ليلة النصف من شعبان بقراءة سورة يس، أو بقراءة بعض السّور بعدد مخصص كسورة الإخلاص، أو تخصيصها بدعاءٍ يسمى دعاء ليلة النّصف من شعبان، وربما شرطوا القبول هذا الدّعاء قراءة سورة يس أو صلاة ركعتين قبله. وكذلك تخصيصها بالصّوم، أو التّصدق، أو اعتقاد أنّ ليلة النّصف من شعبان مثل ليلة القدر في الفضل... حكم الاحتفال بليلة النّصف من شعبان؟ سئل الشّيخ عبد العزيز بن باز -رحمه الله تعالى- عن ليلة النّصف من شعبان؟ وهل لها صلاة خاصة؟ فأجاب: ليلة النّصف من شعبان ليس فيها حديث صحيح. وكل الأحاديث الواردة فيها ضعيفة أو موضوعة لا أصل لها، وهي ليلة ليس لها خصوصية، لا قراءة ولا صلاة خاصّة ولا جماعة... وما قاله بعض العلماء أنّ لها خصوصية فهو قولٌ ضعيفٌ، فلا يجوز أن تخصّ بشيءٍ.. هذا هو الصّواب، وبالله التوفيق. انتهى. (الفتاوى. ج.1). مركز وذكر ملفات المطوية التحميل هنا |
05-06-2017 | #2 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
رد: مطوية ( شعبان عطية من عطايا الكريم المنان ) عربي / أوردي
عن أسامة بن زيد رضي الله عنه قال : قلت يارسول الله ماأرك تصوم شهر من الشهور ماتصوم من شعبان ؟ قال : ( ذاك شهر يغفل الناس عنه بين رجب ورمضان وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين فأحب أن يرفع عملي وأنا صائم ) صححه الألباني یہ ماہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے تحفوں میں سے ایک تحفہ اور اس کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ، حضرت اسامہ بن زید ؓ راوی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ سے ردیافت کیا، اے نبی ﷺ! میں نے آپ کو تمام مہینوں میں کسی مہینہ بھی اتنا روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا جتنا آپ ماہ شعبان میں روزہ رکھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا: یہ مہینہ ماہ رجب اور رمضان کے درمیان آتا ہے عام طور پر لوگ اس ماہ سے بے خبر رہتے ہیں اس لئے مجھے یہ پسند ہے کہ روزہ کی حالت میں میرا عمل اللہ تعالیٰ کو پیش کیا جائے۔ (شیخ البانی ؒ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے) وجہ تسمیہ: (شعبان نام رکھنے کی وجہ) مجرد ایک مہینہ کا نام ہے۔ اسے اس نام سے موسوم کرنیکی ایک وجہ یہ ہے کہ اہل عرب پانی کی تلاش میں منتشر (بکھر) ہوجاتے تھے اور لغت میں” شعب“ کے معنی بکھرنے اورپھیلنے کے آتے ہیں ۔ اس کی دوسری علت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ لوگ غاروں میں پھیل جاتے تھے اور تیسرا سبب یہ بھی بیان کیاگیا ہے کہ چونکہ یہ مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان رونما ہوتا ہے اس لئے اسے شعبان کہا گیا ہے اور اس کی جمع شعبانات اور شعابین آتی ہے۔ روزہ شعبان اور سائنسی انکشاف جدیدسائنس نے یہ انکشاف کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے ابتدائی دنوں میں بدن پہلے سے موجود احتیاطی فیٹ(FAT) اور پروٹین وغیرہ استعمال کرنا شروع کردیتا ہے تاکہ کھانے پینے سے باز رہنے کہ وجہ سے جو کمی آئی ہے اس کی تکمیل کرسکے، اس کی وجہ سے قضائے حاجت سے قبل خون کے اندر زہر پھیل جاتے ہیں جسے (Adrenalian Hormone) کہاجاتا ہے۔ جسکی وجہ سے روزہ دار کچھ عوارض کا شکار ہوجاتا ہے اور کچھ ظاہری علامتیں شروع ہوتی ہیں جیسے درد سر، کمزوری کا احساس،جلد غصہ ہونا، مزاج کی بے اعتدالی وغیرہ۔ بسااوقات گالی گلوج پر اترآتا ہے اور کبھی روزہ چھوڑنے کے لئے بھی مجبور ہوجاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزہ کے چند دنوں بعد ہی جیسے جیسے ہارمون(Hormone) کا تناسب خون کے اندر فطری حالت میں واپس آجاتا ہے ویسے ہی یہ تمام عوارض اور مشکلات دور ہوجاتی ہیں(تجربے سے روزہ داروں کے تئیں یہ بات ثابت ہوچکی ہے) اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ماہ شعبان کا مسنون روزہ اس لحاظ سے ماہ رمضان کے روزے کے لئے راہ ہموار کرتا ہے تاکہ انسان اس ماہ (رمضان) میں کسی بھی تکلیف اور مصیبت کا شکار نہ ہوسکے۔ اور اس بات کا غالب امکان ہے کہ نبی کریم ﷺانہیں باتوں کے پیش نظر شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھا کرتے تھے اور اس کی حکمتوں اور فوائد میں سے یہ بھی ایک بہت بڑا جسمانی وروحانی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس کا صحیح علم ہے۔ نبی کریم ﷺ اور ماہ شعبان ماں عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ماہ شعبان میں اتنا زیادہ روزہ رکھا کرتے تھے کہ ہمیں گمان ہوتا تھا کہ اب آپ روزہ رکھنا بند نہ کریں گے اس طرح اس قدر بے روزہ رہا کرتے تھے کہ ہم سمجھنے لگتے تھے کہ اب آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ اور میں نے آپ کو ماہ رمضان کے علاوہ کسی دوسرےمہینے کا مکمل روزہ رکھتے نہیں دیکھا اور نہ ہی ماہ شعبان سے زیادہ کسی دوسرے مہینے کا روزہ رکھتے دیکھا۔ (بخاری شریف) اور ماں عائشہ ؓ ہی سے دوسری روایت ہے جس میں فرماتی ہیں کہ رسول ﷺ کو شعبان میں روزہ رکھنا نہایت درجہ پسند تھا پھر آپ اسے ماہ رمضان سے ملا دیتے تھے۔ پندرہوں شعبان کی شب(رات) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات اپنی مخلوق پر نظر فرماتا ہے اور شرک کرنے والی اور حسد وبغض والے بندوں کو چھوڑ کر باقی سب کی مغفرت فرمادیتا ہے (صحیح ابن ماجہ) ماہ شعبان کے آخری حصے میں روزہ رکھنے کا حکم: حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشار فرمایا: رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ مت رکھو ہاں اگر کوئی نفلی روزے پہلے سے رکھتا ہو تو رکھ لے (متفق علیہ) تشریح: یعنی اگر کوئی آدمی حسب عادت نفلی روزے جیسے پیر اور جمعرات کے روزہ رکھتا ہو تو اس کے لئے رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ پندرہویں شعبان کی چند بدعات وخرافات: ۱۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ پندرہویں شعبان کی شب مجلس منعقد کرنا سنت ہے (خواہ جس شکل میں ہو) خواہ عبادتوں کی صورت میں ہو یا مدحیہ اشعار وقصائد کی شکل میں یا کھانا کھلانے اور سبیل لگا نے کی صورت میں۔ ۲۔ اس رات میں ہزار رکعتوں والی نماز (صلاة الفیہ) پڑھنا، اسے براءت والی (صلاة البرات) نماز بھی کہا جاتا ہے۔ ۳۔ اسی طرح چودہ یا بارہ رکعت یا چھ رکعت نماز پڑھنا۔ ۴۔ نماز عشاءمیں سورۂ یس یا دوسری سورتیں خاص تعداد کیساتھ پڑھنا مثلا سورۂ اخلاص یا اس رات خاص دعا کا اہتمام کرنا۔ دعا کی قبولیت کے لئے سورۂ یس کی تلاوت یا دعاءسے قبل دو رکعت نماز کی شرط بھی لگائی جاتی ہے۔ ۵۔ خصوصیت کے ساتھ اس دن روزہ رکھنا (ایام بیض اس سے مستثنیٰ ہے) یا اس دن خاص کرکے صدقہ وخیرات کرنا یا یہ خیال کرنا کہ یہ رات فضیلت میں شب قدر کی برابر ہے۔ پندرہویں شعبان کی شب میں جشن منانے کا حکم: شیخ عبدالعزیز بن باز ؒ سے پندرہویں شب میں جشن منانے اور رات میں خاص نماز سے متعلق دریافت کیا گیا؟ آپ نے جواب میں فرمایا: پندرہویں شعبان کی شب سے متعلق کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہے، اس باب میں جو بھی حدیث وارد ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا موضوع ہے، اس شب کی کوئی اصلیت اور خصوصیت نہیں ہے، اس میں نہ کوئی خاص نماز، خاص ذکر اور خاص عمل ثابت ہے، ہاں جو بعض اہل علم نے اس رات سے متعلق بیان کیا ہے ان کا قول ضعیف ہے، لہٰذا اس رات سے کسی خاص عبادت کو جوڑنا درست نہیں ہے۔۔یہی صواب بھی ہے اور توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اھ۔[الفتاوی: ج۔۱] تہ شدہ فائلوں لوڈ کر رہا ہے یہاں
|
|
|